April 23rd, 2024 (1445شوال14)

حج کا عالمگیر اجتماع، حج کے ثمرات

سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ

۱۔ عالم اسلام میں حرکت

برادرانِ اسلام! آپ جانتے ہیں کہ ایسے مسلمان جن پر حج فرض ہے، یعنی کہ جو کعبہ تک آنے جانے کی قدرت رکھتے ہیں، ایک دو تو ہوتے نہیں ہیں۔ ہر بستی میں ان کی اچھی خاصی تعداد ہوتی ہے۔ ہر شہر میں ہزاروں، ہر ملک میں لاکھوں ہی ہوتے ہیں اور ہر سال ان میں سے بہت لوگ حج کا ارادہ کرکے نکلتے ہیں۔ اب ذرا تصور کیجیے کہ دنیا کہ کونے کونے میں جہاں جہاں بھی مسلمان بستے ہیں، حج کا موسم آنے کے ساتھ ہی کس طرح اسلام کی زندگی جاگ اٹھتی ہے، کیسی کچھ حرکت پیدا ہوتی ہے اور کتنی دیر تک رہتی ہے۔ تقریباََ رمضان کے مہینے سے لے کر ذی القعدہ تک دنیا کے مختلف حصوں سے مختلف لوگ حج کی تیاریا کرکے نکلتے ہیں اور ادھر ذی الحج کے آخر سے صفر، ربیع الاوّل بلکہ ربیع الثانی تک واپسیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس چھ سات مہینے کی مدت تک گویا مسلسل تمام روئے زمین کی مسلمان آبادیوں میں ایک طرح کی دینی حرکت جاری رہتی ہے۔ جو لوگ حج کو جاتے اور حج سے واپس آتے ہیں، وہ تو دینی کیفیت سے سرشار ہوتے ہی ہیں، مگر جو نہیں جاتے ان کو بھی حاجیوں کے رخصت کرنے اور ایک ایک بستی سے ان کے گزرنے اور پھر واپسی پر ان کا استقبال کرنے اور ان سے حج کے حالات سننے کی وجہ سے تھوڑا یا بہت اس کیفیت کا کچھ نہ کچھ حصہ مل ہی جاتا ہے۔

۲۔ پرہیزگاری اور تقویٰ کی افزائش

جب ایک ایک حاجی حج کی نیت کرتا ہے اور اس نیت کے ساتھ ہی اس پر خوفِ خدا اور پرہیزگاری اور توبہ و استغفار اور نیک اخلاقی کے اثرات چھانے شروع ہوتے ہیں، اور وہ اپنے عزیزوں، دوستوں، معامل داروں اور ہر قسم کے متعلقین سے اس طرح رخصت ہوتا ہے اور اپنے معاملات صاف کرنا شروع کرتا ہے کہ گویا اب یہ وہ پہلا سا شخص نہیں ہے، بلکہ خدا کی طرف لَو لگ جانے کی وجہ سے اس کا دل پاک صاف ہورہا ہے، تو اندازہ کیجیے کہ ایک حاجی کی اس حالت کا کتنے کتنے لوگوں پر اثر پڑتا ہوگا، اور اگر ہر سال دنیا کہ مختلف حصوں میں ایک لاکھ آدمی اوسطاََ اس طرح حج کے لیے تیار ہوتے ہوں تو ان کی تاثیرکتنے لاکھ آدمیوں کے اخلاق تک پہنچی ہوگی۔ پھر حاجیوں کے قافلے جہاں جہاں سے گزرتے ہوں گے، وہاں ان کو دیکھ کر، ان سے مل کر، ان کی لبیک لبیک کی آواز سن کر کتنوں کے دل گرما جتے ہوں گے، کتنوں کی توجہ اللہ کی طرف اور اللہ کے گھر کی طرف پھر جاتی ہوگی، اور کتنوں کی سوئی ہوئی روح میں حج کے شوق سے حرکت پیدا ہوجاتی ہوگی۔ پھر جب یہ لوگ اپنے مرکز سے پھر کر اپنی اپنی بستیوں کی طرف دنیا کے مختلف حصوں میں حج کی کیفیتوں کا خمار لیے ہوئے پلٹے ہوں گے اور لوگ ان سے ملاقات کرتے ہوں گے تو ان کی زبانِ حال اور زبانِ قال سے اللہ کے گھر کا ذکر سن کر کتنے بے شمار حلقوں میں دینی جذبات تازہ ہوجاتے ہوں گے۔

۳۔ عالم اسلام کی بیداری کا موسم

پس اگر میں یہ کہوں کہ تو بے جا نہ ہوگا کہ جس طرح رمضان کا مہینہ تمام اسلامی دنیا میں تقویٰ کا موسم ہے، اسی طرح حج کا زمانہ تمام روئے زمین میں اسلام کی زندگی اور بیداری کا زمانہ ہے۔ اس طریقے سے شریعت بنانے والے حکیم و دانا نے ایسا بےنظیر انتظام کردیا ہے کہ انشاء اللہ قیامت تک اسلام کی عالمگیر تحریک مٹ نہین سکتی۔ دنیا کے حالات خواہ کتنے ہی بگڑ جائیں اور زمانہ کتنا ہی خراب ہوجائے، مگر یہ کعبے کا مرکز اسلامی دنیا کے جسم میں کچھ اس طرح رکھ دیا گیا ہے جیسے آدمی کے جسم میں دل ہوتا ہے۔ جب تک دل حرکت کرتا رہے، آدمی مر نہیں سکتا، چاہے بیماریوں کہ وجہ سے وہ ہلنے تک کی طاقت نہ رکھتا ہو، بالکل اسی طرح دنیا کا یہ دل بھی ہر سال اس کی دور دراز رگوں تک سے خون کھینچتا رہتا ہے اور پھر اس کو رگ رگ تک پھیلا دیتا ہے۔ جب تک اس دل کی یہ حرکت جاری ہے اور جب تک خون کے کھینچنے اور پھیلنے کا یہ سلسلہ چل رہا ہے، اُس وقت تک یہ بالکل محال ہے کہ اس جسم کی زندگی ختم ہوجائے، خواہ بیماریوں سے یہ کتنا ہی زار و نزار ہو۔

۴۔ وحدتِ ملّت کا پُر کیف نطارہ

ذرا آنکھیں بند کر کے اپنے دل میں اس نقشے کا تصور کیجیے کہ ادھر مشرق سے، ادھر جنوب سے، ادھر مغرب سے، ادھر شمال سے اَن گنت قوموں اور بے شمار ملکوں کے لوگ ہزاروں راستوں سے ایک ہی مرکز کی طرف چلے آرہے ہیں۔ شکلیں اور صورتیں مختلف ہیں، رنگ مختلف ہیں، زبانیں مختلف ہیں، مگر مرکز کے قریب ایک خاص حد پر پہنچتے ہی سب اپنے اپنے قومی لباس اتار دیتے ہیں، اور سارے کے سارے ایک ہی طرز کا سادہ یونیفارم پہن لیتے ہیں،  احرام کا یہ یونیفارم پہننے کے بعد عَلانیہ یہ معلوم ہونے لگتا ہے کہ سلطانِ عالم اور بادشاہِ زمین  و آسمان کی یہ فوج، جو دنیا کے ہزاروں قوموں سے بھرتی ہو کر آرہی ہے، ایک ہی بادشاہ کی فوج ہے، ایک ہی اطاعت و بندگی کا نشان ان سب پر لگا ہوا ہے، ایک ہی وفاداری کے رشتے میں یہ سب بندھے ہوئے ہیں،  اور ایک ہی دارالسلطنت کی طرف اپنے بادشاہ کے ملاحظے میں پیش ہونے کے لیے جارہے ہیں۔  یہ یونیفارم پہنے ہوئے سپاہی جب میقات سے آگے چلتے ہیں تو ان سب کی زبانوں سے وہی ایک نعرہ بلند ہوتا ہے:

لبیک الّٰھم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک

حاضر ہیں، پروردگار ! ہم حاضر ہیں۔ تیرا کوئی شریک نہیں ہم حاضر ہیں۔

بولنے کی زبانیں سب کی مختلف ہیں، مگر نعرہ سب کا ایک ہی ہے۔ پھر جوں جوں مرکز قریب آتا جاتا ہے، دائرہ سمٹ کر چھوٹا ہوتا چلا جاتا ہے۔ مختلف ملکوں کے قافلے ملتے چلے جاتے ہیں، اور سب کے سب مل کر نمازیں ایک ہی طرز پر پڑھتے ہیں۔ سب کا ایک یونیفارم، سب کا ایک امام، سب کی ایک ہی حرکت، سب کی ایک ہی زبان، سب ایک اللہ اکبر کے ہی اشارے پر اٹھتے اور بیٹھتے اور رکوع اور سجدہ کرتے ہیں، اور سب اسی ایک قرآنِ عربی کو پڑھتے اور سنتے ہیں۔ یوں زبانوں اور قومیتوں اور وطنوں اور نسلوں کا اختلاف ٹوٹتا ہے، اور یوں کدا پرستوں کی ایک عالمگیر جماعت بنتی ہے۔ پھر جب یہ قافلے یک زبان ہو کر لبیک لبیک کے نعرے بلند کرتے ہوئے چلتے ہیں، جب ہر بلندی اور ہر پستی پر یہی نعرے لگتے ہیں، جب قافلوں کے ایک دوسرے سے ملنے کے وقت دونوں طرف سے یہی صدائیں اٹھتی ہیں۔ جب نمازوں کے وقت اور صبح کے تڑکے میں یہی آوازیں گونجتی ہیں تو ایک عجیب فضا پیدا ہوجاتی ہے جس کے نشے میں آدمی سرشار ہوکر اپنی خودی کو بھول جاتا ہے اور اس لبیک کی کیفیت میں جذب ہو کر رہ جاتا ہے۔ پھر کعبے پہنچ کر تمام دنیا سے آئے ہوئے آدمیوں کا ایک لباس میں ایک مرکز کے گرد گھومنا، پھر سب کا ایک ساتھ صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا، پھر سب کا منیٰ میں کیمپ لگانا، پھر سب کا عرفات کی طرف کوچ کرنا اور وہاں ایک امام سے خطبہ سننا، پھر سب کا مزدلفہ میں رات کی چھاؤنی ڈالنا، پھر سب کا ایک ساتھ منیٰ کی طرف پلٹنا،  پھر سب کا متفق ہو کر، جمرہٓ عقبہ پر کنکریوں کی چاند ماری کرنا، پھر سب کا قربانیوں کرنا، پھر سب کا ایک ساتھ کعبے کی طرف پلٹ کر طواف کرنا، پھر سب کا ایک ہی مرکز کے ارد گرد نماز پڑھنا۔ ۔ ۔ ۔یہ اپنے اندر وہ کیفیت رکھتا ہے، جس کی نظیر دنیا میں ناپید ہے۔

۵۔ ایک مقصد، ایک مرکز پر اجتماع

دنیا بھر کی قوموں سے نکلے ہوئے لوگوں کا ایک مرکز پر اجتماع، اور وہ بھی ایسی یک دلی یکجہتی کے ساتھ، ایسی ہم خیالی و ہم آہستگی کے ساتھ، ایسے پاک جذبات، پاک مقاصد اور پاک اعمال کے ساتھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حقیقت میں اتنی بڑی نعمت ہے جو آدم کی اولاد کو اسلام کے سوا کسی نے نہیں دی۔ دنیا کی قومیں ہمیشہ ایک دوسرے سے ملتی رہی ہیں، مگر کس طرح؟ میدانِ جنگ میں گلے کاٹنے کے لیے، یا صلح کانفرنسوں میں، ملکوں کی تقسیم اور قوموں کے بٹوارے کے لیے، یا مجلس اقوام متحدہ میں، تاکہ ہر قوم دوسری قوم کے خلاف دھوکے، فریب، سازش اور بے ایمانیوں کے جال پھیلائے اور دوسرے کے نقصان سے اپنا فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ تمام قوموں کے عام لوگوں کا صاف دلی کے ساتھ ملنا، نیک اخلاق اور پاک خیالات کے ساتھ ملنا، محبت اور خلوص کے ساتھ ملنا، قلبی روحانی اتحاد کے ساتھ ملنا، خیالات، اعمال اور مقاصد کی یکجہتی کے ساتھ ملنا، اور صرف ایک ہی دفعہ مل کر نہ رہ جانا، بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہر سال ایک مرکز پر اسی طرح اکھٹے ہوتے رہنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا یہ نعمت اسلام کے سوا بنی نوع انسان کو اور بھی کہیں ملتی ہے؟ دنیا میں امن قائم کرنے، قوموں کی دشمنوں کو مٹانے اور لڑائی جھگڑوں کے بجائے محبت، دوستی اور برابری کی فضا پیدا کرنے کے لیے اس سے بہتر نسخہ کس نے تجویز کیا ہے؟

۶۔ قیامِ امن کی سب سے بڑی تحریک

اسلام صرف اتنا ہی نہیں کرتا۔ اس سے بڑھ کر یہاں اور بہت کچھ ہے۔ اس نے لازم کیا ہے کہ سال کے چار مہینے جو حج اور عمرے کے لیے مقرر کیے گئے ہیں، ان میں کوشش کی جائے کہ کعبے کی طرف آنے والے تمام راستوں میں امن قائم رہے۔ یہ دنیا میں امن قائم رکھنے کی سب سے بڑی دوامی تحریک ہے، اور اگر دنیا کی سیاست کی باگیں اسلام کے ہاتھوں میں ہوں تو مسلمانوں کی پوری کوشش یہ ہوگی کہ دنیا میں ایسی بدامنی برپا نہ ہونے پائے جس سے حج اور عمرے کا نظام معطل ہوجائے۔

۷۔ دنیا میں واحد مرکزِ امن

اس نے دنیا کو ایک ایسا حرم دیا ہے جو قیامت تک کے لیے امن کا شہر ہے۔ جس میں آدمی تو کیا جانور تک کا شکار نہیں کیا جاسکتا، جس میں گھاس تک کاٹنے کی اجازت نہیں،جس کی زمین کا کانٹا تک نہین توڑا جاسکتا، جس میں حکم ہے کہ کسی کی کوئی چیز گری پڑی ہو تو اسے ہاتھ تک نہ لگاؤ۔ اس نے دنیا کو ایک ایسا شہر دیا ہے جس میں ہتھیار لانے کی ممانعت ہے، جس میں غلے کو اور دوسری عام جرورت کی چیزوں کو روک کر مہنگا کرنا الحاد کی حد تک پہنچ جاتا ہے، جس میں ظلم کرنے والے کو اللہ نے دھمکی دی ہے کہ:

’’ہم اسے دردناک سزا دیں گے‘‘۔ (الحج: ۲۵:۲۲ )

۸۔ حقیقی مساوت کا مرکز

اُس نے دنیا کو ایک ایسا مرکز دیا ہے جس کی تعریف یہ ہے کہ:(الحج ۲۵:۲۲) یعنی’’وہاں اُن تمام انسانوں کے حقوق بالکل برابر ہیں‘‘ جو خدا کی بادشہت اور محمد کی رہنمائی تسلیم کرکے اسلام کی برادری میں داخل ہوجائیں، خواہ کوئی شخس امریکا کا رہنے والا ہو یا افریقہ کا، چین کا ہو یا ہندوستان کا، اگر وہ مسلمان ہوجائے تو مکہ کہ زمین پر اُس کے وہی حقوق ہیں جو خود مکہ والوں کے ہیں۔ پورے حرم کے علاقے کی حیثیت گویا مسجد کی سی ہے کہ جو شخص مسجد میں جا کر کسی جگہ اپنا ڈیرہ جما دے وہ جگہ اسی کی ہے، کوئی اس کو وہاں سے اٹھا نہیں سکتا، نہ اس سے کرایہ مانگ سکتا ہے، مگر وہ اس جگہ خواہ تمام عمر بیٹھا رہا ہو اسے یہ کہنے کا حق نہیں کہ یہ جگہ میری ملِک ہے، نہ وہ اس کو بیچ سکتا ہے، نہ اس کا کرایہ وصول کرسکتا ہے، حتیٰ کہ جب وہ شخص اس جگہ سے اٹھ جائے تو دوسرے کو بھی وہاں ڈیرہ جمانے کا ویسا ہی حق ہے جیسا اُس کا تھا۔ بالکل یہی حال پورے مکہ کے حرم کا ہے۔ نبی کا ارشاد ہے:

مکتہ مناح لمن سبق۔(ابو داؤد)

’’جو شخص اس شہر میں کسی جگہ آکر پہلے اتر جائے وہ جگہ اسی کی ہے۔‘‘

وہاں کے مکانوں کا کرایہ لینا جائز نہیں ہے۔

حضرت عمرؓ نے وہاں کے لوگوں کو حکم دیا تھا کہ اپنے مکانات کے گرد صحنوں پر دروازے نہ لگاؤ، تاکہ جو چاہے تمھارے صحن میں آکر ٹھیر سکے۔ بعض فقہا نے تو یہاں تک کہا ہے کہ شہر مکہ کے مکانات پر نہ کسی کی ملکیت ہے اور نہ وہ وراثت میں منتقل ہوسکتے ہیں۔

کیا اسلام کے سوا یہ نعمتیں انسان کو کہیں اور بھی مل سکتی ہیں؟

بھائیو! یہ ہے وہ حج جس کے متعلق فرمایا گیا تھا کہ اسے کرکے دیکھو، اس میں تمھارے لیے کتنے منافعے ہیں۔ میری زبان میں اتنی قدرت نہیں کہ اس کے سارے منافعے گِنا سکوں، تاہم اس کے فائدوں کا یہ ذرا سا خاکہ جو میں نے آپ کے سامنے پیش کیا ہے اسی سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کیا چیز ہے۔

ہماری قدر ناشناسی

یہ سب کچھ سننے کے بعد میرے جلے دل کی کچھ باتیں سُن لو۔ تم نسلی مسلمانوں کا حال اُس بچے کا سا ہے جو ہیرے کی کان میں پیدا ہوا ہے۔ ایسا بچہ جب ہر طرف ہیرے ہی ہیرے دیکھتا ہے اور پتھروں کی طرح ہیروں سے کھیلتا ہے تو ہیرے اُس کی نگاہ میں ایسے ہی بے قدرے ہو جاتے ہیں جیسے پتھر۔ یہی حالت تمہاری بھی ہے۔ دنیا جن نعمتوں سے محروم ہے ، جن سے محروم ہو کر مصیبتیں اور تکلیفیں اٹھا رہی ہیں اور جن کی تلاش میں حیران و سرگرداں ہے، وہ نعمتیں تم کومفت میں بغیر تلاش و جستجو کے صرف اس وجہ سے مل گئیں کی خوش قسمتی سے تم مسلمان کے گھروں میں پیدا ہوئے ہو۔ وہ کلمہ توحید جو انسان کی زندگی کے تمام پیچیدہ مسئلوں کو سلجھا کر ایک صاف سیدھا راستہ بتا دیتا ہے، ، بچپن سے تمھارے کانوں میں پڑا۔ نماز اور روزے کے وہ کیمیا سے زیادہ قیمتی نسخے جو آدمی کو جانور سے انسان بناتے ہیں اور انسانوں کو خدا ترس اور ایک دوسرے کا  بھائی، ہمدرد اور دوست بنانے کے لیے جن سے بہتر نسخے آج تک دریافت نہیں ہوسکے ہیں، تم کو ّنکھ کھولتے ہی کود بخود باپ دادا کی میراث میں مل گئے۔ زکوٰۃ کی وہ بے نظیر ترکیب جس سے محض دلوں ہی کی ناپاکی دور نہیں ہوتی بلکہ دنیا کے مالیات کا نظام بھی درست ہوجاتا ہے، جس سے محروم ہوکر تم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو کہ دنیا کے لوگ ایک دوسرے کا منہ نوچنے لگے ہیں، تمہیں وہ اس طرح مل گئی ہے جیسے حکیم حاذق کے بچے کو بغیر محنت کے وہ نسخے مل جاتے ہیں جنہیں دوسرے لوگ ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ اسی طرح حج کا وہ عظیم الشان طریقہ بھی جس کا آج دنیا بھر میں کہیں جواب نہیں ہے، جس سے زیادہ طاقتور ذریعہ کسی تحریک کو چار دانگ عالم میں پھیلانے اور ابد الآباد تک زندہ رکھنے کے لیے آج تک دریافت نہیں ہوسکا ہے، جس کے سوا آج دنیا میں کوئی عالم گیر طاقت ایسی موجود نہیں ہے کہ آدم کی ساری اولاد کو زمین کے گوشے گوشے سے کھینچ کر خدائے واحد کے نام پر ایک مرکز پر جمع کردے اور بےشمار نسلوں اور قوموں کو ایک خدا پرست، نیک نیت، خیر خواہ برادری میں پیوست کرکے رکھ دے۔ ہاں، ایسا بے نظیر طریقہ بھی تمیہں بغیر کسی جستجو کے بنا بنایا اور صد ہا برس سے چلتا ہوا مل گیا، مگر تم نے ان نعمتوں کی کوئی قدر نہ کی، کیونکہ آنکھ کھولتے ہی یہ تم کو اپنے گھر میں ہاتھ آگئیں۔ اب تم اُن سے بلکل اسی طرح کھیل رہے ہو جس طرح ہیرے کی کان میں پیدا ہونے والا نادان بچہ ہیروں کھیلتا ہے اور انہیں کنکر پتھر سمجھنے لگتا ہے۔ اپنی جہالت اور نادانی کی وجہ سے جس بری طرح تم اس زبردست دولت اور طاقت کو ضائع کررہے ہو، اس کا نظارہ دیکھ کر دل جل اٹھتا ہے۔ کوئی کہاں سے اتنی قوتِ پرداشت لائے کہ پتھر پھوڑوؤں کے ہاتھوں جواہرات کو برباد ہوتے دیکھ کر ضبط کرسکے؟

میرے عزیزو! تم نے شاعر کا یہ شعر تو سنا ہی ہوگا کہ:

                                                خرِ      عیسٰے     اگر    بمکہّ     رَود

                                                 چوں    بیاید      ہنوز     خر     باشد

یعنی گدھا خواہ عیسیٰ ؑ جیسے پیغمبروں ہی کا کیوں نہ ہو مکہ کی زیارت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ اگر وہ وہاں ہو آئے تب بھی جیسا گدھا تھا ویسا ہی رہے گا۔

نماز روزہ ہو یا حج یہ سب چیزیں سمجھ بوجھ رکھنے والے انسانوں کی تربیت کے لیے ہیں، جانوروں کو سدھارنے کے لیے نہیں۔ جو لوگ نہ ان کے معنی و مطلب کو سمجھیں، نہ ان کے مدعا سے کچھ غرض رکھیں، نہ اُس فائدے کو حاصل کرنے کا اراداہ ہی کریں جو اِن عبادتوں میں بھرا ہوا ہے، بلکہ جن کے دماغ میں اِن عبادتوں کے مقصد و مطلب کا سرے سے کوئی تصور ہی نہ ہو، وہ اگر ان افعال کی نقل اس طرح اتار دیا کریں کہ جیسا اگلوں کو کرتے دیکھا ویسا ہی خود کردیا، تو اس سے آخر کس نتیجے کی توقع کی جاسکتی ہے! بدقسمتی سے عموماََ آج کل کے مسلمان اسی طریقے سے ان افعال کو ادا کررہے ہیں۔ ہر عبادت کی ظاہری شکل جیسی مقرر کردی گئی ہے ویسے ہی بنا کر رکھ دیتے ہیں، مگر وہ شکل روح سے بالکل خالی ہوتی ہے۔ تم دیکھتے ہو کہ ہر سال ہزار ہا زائرین مرکزِ اسلام کی طرف جاتے ہیں اور حج سے مشرف ہو کر پلٹتے ہیں مگر نہ جاتے وقت ہی ان پر وہ اصلی کیفیت طاری ہوتی ہے جو ایک مسافرِ حرم میں ہونی چاہیے، نہ وہاں سے واپس آکر ہی ان میں کوئی اثر حج کا پایا جاتا ہے، اور نہ اس سفر کے دوران میں وہ اُن آبادیوں کے مسلمانوں اور غیر مسلموں پر اپنے اخلاق کا کوئی اچھا نقش بٹھاتے ہیں جن پر سے اُن کا گزرتا ہے۔ بلکہ اس کے برسکس اُن میں زیادہ تر وہ لوگ چامل ہوتے ہیں جو اپنی گندگی، بے تمیزی اور اخلاقی پستی کی نمائش کرکے اسلام کی عزت کو بٹہ لگاتے ہیں۔ ان کی زندگی کو دیکھ کر بجائے اس کے کہ دین کی بزرگی کا سکہ غیروں پر جمے، خود اپنوں کی نگاہوں میں بھی وہ بے وقعت ہوجاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج خود ہماری اپنی قوم کے بہت سے نوجوان ہم سے پوچھتے ہیں کہ ذرا اس حج کا فائدہ تو ہمیں سمجھاؤ۔ حالانکہ یہ  حج وہ چیز تھی کہ اگر اسے اس کی اصلی شان کے ساتھ ادا کیا جاتا تو کافر تک اس کے فائدوں کو عَلانیہ دیکھ کر ایمان لے آتے۔

کسی تحریک کے ہزاروں لاکھوں ممبر ہر سال دنیا کے ہر حصے سے کھینچ کر ایک جگہ جمع ہوں اور پھر اپنے اپنے ملکوں کو واپس جائیں۔ ملک ملک اور شہر شہر سے گزرتے ہوئے اپنی پاکیزہ زندگی، پاکیزہ خیالات اور پاکیزہ اخلاق کا اظہار کرتے جائیں، جہاں جہاں ٹھیریں اور جہاں گزریں وہاں اپنی تحریک کے اصولوں کا نہ صرف زبان سے پرچار کریں، بلکہ اپنی عملی زندگی سے ان کا پورا پورا مظاہرہ بھی کردیں اور یہ سلسلہ دس بیس برس نہیں، بلکہ صدیوں تک سال بہ سال چلتا رہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھلا غور تو کیجیے کہ یہ بھی کوئی ایسی چیز تھی کہ اس کے فائدے پوچھنے کی کسی کو ضرورت پیش آتی؟ خدا کی قسم، اگر یہ کام صحیح طریقے پر ہوتا تو اندھے اس کے فائدے دیکھتے اور بہرے اس کے فائدے سن لیتے۔ ہر سال کا حج کروڑوں مسلمانوں کو نیک بناتا، ہزاروں غیر مسلموں کو اسلام کے دائرے میں کھینچ لاتا، اور لاکھوں غیر مسلموں کے دلوں پر اسلام کی بزرگی کا سکہ بٹھادیتا۔ مگر برا ہو جہالت کا، جاہلوں کے ہاتھ پڑ کر کتنی بیش قیمت چیز کسی بری طرح ضائع ہورہی ہے۔

حج سے پورے فائدے حاصل کرنے کا طریقہ

حج کے پورے فائدے حاصل ہونے کے لیے ضروری تھا کہ مرکزِ اسلام میں کوئی ایسا ہاتھ ہوتا جو اس عالمگیر طاقت سے کام لیتا، کوئی ایسا دل ہوتا جو ہر سال تمام دنیا کے جسم میں خونِ صالح دوڑاتا رہتا، کوئی ایسا دماغ ہوتا جو ان ہزاروں لاکھوں خداداد قاصدوں کے واسطے سے دنیا بھر میں اسلام کے پیغام کو پھیلانے کی کوشش کرتا، اور کچھ نہیں تو کم از کم اتنا ہی ہوتا کہ وہاں کچھ خالص اسلامی زندگی کا ایک مکمل نمونہ موجود ہوتا اور ہر سال دنیا کے مسلمان وہاں سے صحیح دین داری کا تازہ سبق لے لے کر پلٹتے ۔ ۔ ۔ ۔ مگر وائے افسوس کی وہاں کچھ بھی نہیں۔ مدت ہائے دراز سے عرب میں جہالت پرورش پا رہی ہے۔ عباسیوں کے دور سے لے کر عثمانیوں کے دور تک ہر زمانے کے بادشاہ اپنی سیاسی اغراض کی خاطر عرب کو ترقی دینے کے بجائے، صدیوں سے پیہم گرانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے اہلِ عرب کو اخلاق، تمدن، ہرچیز کے اعتبار سے پستی کی انتہا تک پہنچا کر چھوڑا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ سر زمین جہاں سے کبھی اسلام کا نور تمام عالم میں پھیلا تھا، آج اسی جاہلیت کے قریب پہنچ گئی ہے جس میں وہ اسلام سے پہلے مبتلا تھی۔ اب نہ وہاں اسلام کا علم ہے، نہ اسلامی اخلاق ہیں، نہ اسلامی زندگی ہے۔ لوگ دور دور سے بڑی گہری عقیدتیں لیے ہوئے حرم پاک کا سفر کرتے ہیں، مگر اس علاقے میں پہنچ کر جب ہر طرف ان کو جہالت، گندگی، طمع، بے حیائی، چنیا پرستی، بد اخلاقی، بد انتظامی اور عام باشندوں کی ہر طرح گری ہوئی حالت نظر آتی ہے تو ان کی توقعات کا سارا طلسم پاش پاش ہو کر رہ جاتا ہے۔ حتیٰ کے بہت سے لوگ حج کرکے اپنا ایمان بڑھانے کے بجائے اور الٹا کچھ کھو آتے ہیں۔ وہی پرانی مہنت گری جو حضرت ابراہیم و اسمعٰیلؑ کے بعد جاہلیت کے زمانے میں کعبہ پر مسلط ہوگئی تھی اور جسے رسول اللہ نے آکر ختم کیا تھا، اب پھر تازہ ہوگئی ہے۔ حرم کعبہ کے منتظم پھر اسی طرح مہنت بن کر بیٹھ گئے ہیں۔ خدا کا گھر اُن کے لیے جائداد اور حج ان کے لیے تجارت بن گیا ہے۔ حج کرنے والوں کو وہ اپنی اسامی (گاہک، خریدار) سمجھتے ہیں۔ مختلف ملکوں میں بڑی بڑی تنخواہیں پانے والے ایجنٹ مقرر ہیں، تاکہ اسامیوں کو گھیر گھیر کر بھیجیں۔ ہر سال اجمیر کے خادموں کی طرح ایک لشکر کا لشکر دلالوں اور سفری ایجنٹوں کا مکہ سے نکلتا ہے، تاکہ دنیا بھر کے ملکوں سے اسامیوں کو گھیر لائے۔ قرآن کی آیتیں اور حدیث کے احکام لوگوں کو سنا سنا کر حج پر آمادہ کیا جاتا ہے، اس لیے نہیں کہ انہیں خدا کا عائد کیا ہوا فرض یاد دلایا جائے، بلکہ صرف اس لیے کہ ان احکام کو سن کر یہ لوگ حج کو نکلیں تو آمدنی کا دروازہ کھلے۔ گویا اللہ اور اس کے رسول نے یہ سارا کاروبا انھی مہنتوں اور ان کے دلالوں کی پرورش کے لیے پھیلایا تھا۔ پھر جب اس فرض کو ادا کرنے کے لیے آدمی گھر سے نکلتا ہے تو سفر شروع کرنے سے لے کر واپسی تک ہر جگہ، اس کو مذہبی مزدوروں اور دینی تاجروں سے سابقہ پیش آتا ہے۔ معلّم، مطوّف، وکیلِ مشوّف، کلید بردارِ کعبہ اور کود حکومتِ حجاز، سب اس تجارت میں حصہ دار ہیں۔ حج کے سارے مناسک معاوضہ لے کر ادا کرائے جاتے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے خانہ کعبہ کا دورازہ تک فیس کے بغیر نہیں کھل سکتا۔ نعوذ باللہ من ذالک۔

یہ بنارس اور ہر دور کے پنڈتوں کی سی حالت اُس دین کے نام نہاد خدمت گزاروں اور مرکزی عبادت گاہ کے مجاوروں نے اختیار کر رکھی ہےجس نے مہنت گری کے کاروبار کی جڑ کاٹ دی تھی۔ بھلا، جہاں عبادت کرانے کا کام مزدوری اور تجارت بن گیا ہو، جہاں عبادت گاہوں کو ذریعہٓ آمدنی بنالیا گیا ہو، جہاں احکامِ الہٰی کو اس غرض کے لیے استعمال کیا جاتا ہو کہ خدا کا حکم سن کر لوگ فرض بجا لانے کے لیے مجبور ہوں اور اس طاقت کے بل پر اُن کی جیبوں سے روپیہ گھسیٹا جائے، جہاں آدمی کو عبادت کا ہر رکن ادا کرنے کے لیے معاوضہ دینا پڑتا ہو، اور دینی سعادت ایک طرح سے خرید و فروخت کی جنس بن گئی ہو، ایسی جگہ عبادت کی روح باقی کہاں رہ سکتی ہے؟ کس طرح آپ امید کرسکتے ہیں کہ حج کرنے والوں اور حج کرانے والوں کی اس عبادت کے حقیقی و روحانی فائدے حاصل ہوں گے جبکہ یہ کام سوداگری  اور دوسری طرف خریداری کی ذہنیت سے ہورہا ہو!

[واضح رہے کہ یہ خطبہ ۱۹۳۸ء کا ہے۔ اس کے بعد اسے اب تک حلات کی بہت کچھ اصطلاح ہوچکی ہے اور سعودی حکومت مزید اصلاح کے لیے کوشاں ہے۔ عرب میں تعلیم بھی پھیلائی جارہی ہے۔ ریاض، مکہ، جدہ وغیرہ شہروں میں شریعت کی تعلیم کے لیے اعلیٰ درجے کے ادارے قائم کیے گئے ہیں۔ مدینہ طیبہ میں ایک جامعہ اسلامیہ نے بڑے پیمانے پر کام شروع کردیا ہے۔ مکہ معظّمہ میں رابطہٓ عالم اسلامی کے نام سے عالم اسلامی کی ایک بین الاقوامی تنظیم قائم کی گئی ہے جو پوری کوشش کررہی ہے کہ حج کے اجتماع سے فائدہ اٹھا کر تمام مسلمان قوموں میں دینی روح بیدار کی جائے۔ ان پہلوؤں سے حالات بڑی حد تک قابلِ اطمینان ہیں۔ اب دو امور کی طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے۔ ایک یہ کہ حرمین شریفین کی سرزمین کو مغربی تہذیب کے سیلاب سے بچایا جائے۔ دوسرے یہ کہ معلمین کی اصلاح کی جائے۔ خدا کرے کہ سعودی حکومت اس سلسلے میں صحیح تدابیر عمل میں لائے۔]

اس ذکر سے میرا مقصد کسی کو الزام دینا نہین ہے، بلکہ صرف آپ لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ حج جیسی عظیم الشان طاقت کو آج کن چیزوں سے قریب قریب بالکل بے اثر بنا کر رکھ دیا ہے۔ یہ غلط فہمی کسی کے دل میں یہ رہنی چاہیے کہ اسلام اور اس کے جاری کیے ہوئے طریقوں میں کوئی کوتاہی ہے۔ نہیں! کوتاہی دراصل اُن لوگوں میں ہے جو اسلام کی صحیح پیروی نہیں کرتے۔ یہ تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے کہ جو طریقے تم کو انسانیت کا مکمل نمونہ بنانے والے تھے، جن پر ٹھیک ٹھیک عمل کرکے تم تمام دنیا کے مصلح اور امام بن سکتے تھے، ان سے آج کوئی اچھا پھل ظاہر نہیں ہورہا ہے، اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ لوگوں کو خود ان طریقوں کے مفید ہونے میں شک ہونے لگا ہے۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے طبیب حاذق چند بہترین تیر بہ ہدف نسخے مرتب کرکے چھوڑ گیا ہو، اور بعد میں اُس کے وہ نسخے اناڑی اور جاہل جانشینوں کے ہاتھ پڑ کر بےکار بھی ہورہے ہوں اور بدنام بھی۔ نسخہ بجائے خود چاہے کتنا ہی صحیح ہو، مگر بہرحال اس سے کام لینے کے لیے فن کی واقفیت اور سمجھ بوجھ ضروری ہے۔ اناڑی اس سے کام لیں گے تو عجب نہیں کہ وہ غیر مفید ہی نہیں، بلکہ مضر ہوجائے اور جاہل لوگ جو خود نسخے کو جانچنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں، اس غلط فہمی میں پڑ جائیں کہ نسخہ خود ہی غلط ہے۔