March 28th, 2024 (1445رمضان18)

’’عید الفطر‘‘

 

عید اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندے کے لئے ایک خوبصورت انعام ہے۔ چنانچہ بندے کے لئے ضروری ہے کہ وہ نہ صرف خود خوش اور ہشاش بشاش رہے بلکہ اپنی خوشی کا اظہار کرکے اپنے ربّ کو بھی راضی رکھے۔

خوشی منانا اور اس کا اظہار کرنا عین تقاضہ فطرت ہے، اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لیے وہ مسلمانوں کو خوشی منانے کا پورا پورا حق دیتا ہے، خوشی مناتے ہوئے اگر اسلامی اقدار کا خیال رکھا جائے اور اللہ کے دیے گئے احکامات اور نبی کے طریقے کے مطابق عمل کیا جائے تو خوشی منانا اجر و ثواب کا باعث بن جاتا ہے۔عید کا دن مسلمانوں کے لئے خوشی کا دن ہے۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ہر سال دو دن ایسے ہوتے ہیں جن میں وہ سب کھیل کو د کیا کرتے۔ جب نبی مدینہ تشریف لائے تو آپ نے فرمایا:’’تم سال میں دو دن خوشیاں منایا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان سے بہتر دو دن عطا فرمائے ہیں، عید الفطر اور عید الاضحٰی‘‘۔(سنن نسائی)

امام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں کہ ’’عید اللہ کی جانب سے نازل کردہ عبادات میں سے ایک عبادت ہے۔ نبی اکرم کے فرمان اِنَّ لِکُلِّ قَومِِ عِیدََاوَاِنَّ عِیدَنَا ھَذَا (ہر قوم کے لئے عید ہوتی ہے اور یہ ہماری عید ہے، صحیح بخاری) کے مطابق یہ عیدین امت کی خصوصیت ہیں‘‘۔

عید الفطر۔ مسرت و انعام کا دن

رمضان کے بعد، شوال کے پہلے دن عید الفطر منائی جاتی ہے۔ عید الفطر کو روزے داروں کے لیے مسرت و رحمت کا پیامبر بنادیا گیا اور اسے رمضان المبارک میں کی گئی عبادت و ریاضت، اطاعت و بندگی، تسبیح و تہلیل، حمد و ثناء، درود و سلام، سحر و افطار اور تراویح کے اجر و ثواب اور انعام و اکرام کے لئے بطور خوشی عطا کیا گیا۔ یہ دن،ان خوش قسمت اور بامراد لوگوں کے یوم الجزا اور یوم الانعام ہے جنہوں نے رمضان المبارک کی پر نور گھڑیوں سے جی بھر کر فائدہ اٹھایا اور دل و دماغ کی تازگی کا اہتمام کیا۔

عید کے دن کرنے کے کام

زیب وزینت

عید کے دن غسل کرنا، صاف ستھرا لباس پہننا اور زینت کا اہتمام کرنا پسندیدہ ہے۔ عید کے لئے بہترین لباس پہن کر جانا مستحب ہے۔ امام ابن قیمؒ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ عیدین کے موقع پر اپنا سب سے خوبصورت لباس پہنتے تھے۔(زاد المعاد)

حضرت ابن عباس سے روایت ہے:کَانَ رَسُولُ اللہِ یَلبَسُ یَومَ العِیدِبُروَۃََ حُمراء’’رسول اللہ عید کے دن سرخ دھاری دار چادر زیب تن فرماتے‘‘۔(المعجم الکبیر للطبرانی)

ابن عمرؓ جو نبی کا بہت زیادہ اتباع کرنے والے تھے عیدین کے موقع پر اپنا سب سے عمدہ لباس زیب تن کرتے تھے۔(السنن الکبریٰ للبیھقی)

البتہ مردوں کے لیے ریشمی لباس نا پسندیدہ ہے لہٰذا اُنھیں اس کے استعمال سے بچنا چاہئیے۔ نیز خوشی کے اس موقع پر اسراف سے بچنے کی ضرورت ہے۔

تکبیرات پڑھنا

فرمانِ الٰہی ہے:ولتکبروا اللہ علی ما ھد کم (سورۃ البقرۃ: ۱۸۵)

’’اور اللہ کی بڑائی بیان کرو اس پر جو اس نے تمھیں ہدایت دی‘‘

اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرو اس پر جو اس نے تمھیں ہدایت دی‘‘۔

اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرنے کا حکم عام ہے جس میں عیدین کے موقع بھی شامل ہیں۔

امام زہریؒ سے روایت ہے کہ بیشک رسول اللہ عید الفطر کے دن تکبیریں کہتے ہوئے عید گاہ کی طرف روانہ ہوتے۔ نماز ادا کرنے تک تکبیروں کا سلسلہ جاری رکھتے۔ جب نماز ادا کرلیتے تو تکبیریں کہنا ترک کردیتے‘‘۔(مصنف ابن ابی شیبہ)

نافعؒ سے روایت ہے کہ بیشک حضرت ابن عمرؓ دن کے آغاز میں مسجد سے عیدگاہ کی طرف جاتے اور با آواز بلند تکبیر کہتے، یہاں تک کہ عید گاہ پہنچ جاتے اور وہ امام کے کھڑے ہونے تک تکبیر کہتے رہتے تھے۔(السنن الکبریٰ للبیھقی)

البتہ ایک آواز میں مل کر تکبیرات نہ کہیں کہ ایسا کرنا ثابت نہیں ، خواتین آہستہ آواز میں تکبیرات پڑھیں۔ تکبیرات کہنے کہ بارے میں امام ابن تیمیہ ؒ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’عید الفطر میں تکبیر کا آغاز چاند دیکھنے سے اختتام نمازِ سید سے فارغ ہونے پر ہے‘‘۔(مجموع الفتاویٰ)

تکبیرات کے الفاظ

ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے کہ اس دوران لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا:اَللہُ اَکبَرُ کَبیرَا وَالحَمدُِ للہِ کَثِیرََاوَسُبحَانَ اللہِ بُکرَۃََوَّاَصِیلاََ ، رسول اللہ نے پوچھا’’یہ کلمہ کس نے کہا ہے؟‘‘اس شخص نے جواب دیا:میں نے (یہ سن کر) نبی نے فرمایا:’’مجھے تعجب ہوا جب اس (کلمہ) کے لئے آسمان کے دروازے کھول دیے گئے‘‘۔(صحیح مسلم)

ابن عمرؓ کہتے ہیں میں نے جب سے آپ سے یہ بات سنی ہے ان کلمات کو کبھی نہیں چھوڑا۔

چنانچہ صحابہ کرامؓ سے مختلف تکبیرات پڑھنا ثابت ہے، مثلاََ

*اَللہُ اَکبَرُ اَللہُ اَکبَرُ لاَ الٰہَِ الاَّاللہُ وَاللہُ اَکبَرُ اَللہُ اَکبَرُ وَ للہ ِ الحَمدُ(فتح الباری)

فطرانہ

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ’’رسول اللہ نے صدقہ فطرہ روزہ دار کو لغو اور بیہودہ بات سے پاک کرنے اور مساکین کے کھانے کے لئے مقرر کیا۔ جو شخص اس کو عید کی نماز سے پہلے ادا کرے تو وہ مقبول صدقہ ہے اور جو نماز کے بعد ادا کرے تو وہ عام صدقہ شمار ہوگا‘‘۔(سنن ابو داؤد)

لہٰذا گھر کے تمام زیر کفالت افراد، ملازمین اور بچوں کی طرف سے عید الفطر کی صبح نماز عید سے پہلے صدقہ فطرانہ ادا کی جانا چاہیے۔

نافعؓ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمرؓ عید الفطر سے دو تین دن پہلے صدقہ فطر اس شخص کے پاس بھیج دیا کرتے جس کے پاس وہ جمع ہوتا۔(مؤطا امام مالک)

فطرانہ کی مقدار آپ نے کھجور یا جو کا ایک صاع مقرر کی ہے جو آجکل تقریباََ ڈھائی کلو کے برابر ہے۔

نماز سے قبل میٹھا کھانا

عید الفطر کی نماز کے لیے جانے سے پہلے میٹھا کھانا مسنون ہے۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ’’رسول اللہ عید الفطر کے دن کھجوریں تناول فرمائے بغیر نہ نکلتے‘‘۔ حضرت انسؓ ہی کی ایک اور روایت ہے کہ ’’وہ اس کو طاق تعداد میں تناول فرماتے‘‘۔(صحیح بخاری)

کھجوریں موجود نہ ہوں تو کوئی بھی میٹھی چیز کھائی جاسکتی ہے۔

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے عید الفطر اور عید الاضحی کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔(مؤطا امام مالک)

خواتین کو عید گاہ لے جانے کی تاکید

حفصہ بنت سیرین بیان کرتی ہیں کہ ہم اپنی لڑکیوں کو عید کے دن باہر نکلنے سے منع کیا کرتے تھے، پھر ایک عورت(بصریٰ) آئی اور بنی خلف کے محل میں اتری میں اس سے ملنے گئی، اس نے بیان کیا کہ اس کے بہنوئی نے نبی کے ساتھ بارہ جہاد کیے تھے اور چھ جہادوں میں اس کی بہن بھی نبی کے ساتھ تھی اس نے کہا کہ ہم بیماروں کی خدمت اور زخمیوں کی مرہم پٹی کیا کرتیں تھیں۔ اس نے آپ سے عرض کیا: یارسول اللہ! ہم میں سے کسی عورت کے پاس ڈوپٹہ یا چادر نہ ہو تو کچھ قباحت نہیں اگر وہ عید کے دن نہ نکلے؟ نبی نے فرمایا:’’اس کی ہم جولی اپنی چادر یا ڈوپٹہ اس کو پہنا دے اور عورتوں کو لازم ہے کہ ثواب کے کاموں میں حاضر ہوں اور ایمان والوں کی دعا میں شریک ہوں‘‘۔(صحیح بخاری)

ام عطیہؓ سے روایت ہے، فرماتی ہیں:’’ہمیں حکم دیا یعنی نبی نے کہ ہم جوان، کنواری لڑکیوں اور پردہ نشین عورتوں کو دونوں عیدوں کے دن (نماز کے لئے) لائیں اور حکم دیا کہ حیض والیاں مسلمانون کی نماز کی جگہ سے دور رہیں‘‘۔(صحیح مسلم)

البتہ خواتین عید گاہ آتے جاتے وقت اپنی زینت چھپا کر نکلیں اور ایسی خوشبو اے اجتناب کریں جو مردوں تک پہنچ رہی ہو۔

نماز عید

*عید کی نماز ادا کرنا اہل اسلام پر فرض ہے۔ نماز عید کا وقت طلوع آفتاب کے بعد ہے۔

*عید کی نماز اذان اور تکبر (اقامت) کے بغیر پڑھی جاتی ہے۔(صحیح مسلم)

*عید کی نماز کی دو رکعتوں سے پہلے اور بعد میں کوئی نفل نماز نہیں ہے۔(صحیح بخاری)

*حضرت عبداللہ بن عمرؓ عید الفطر کی نماز سے پہلے اور بعد میں کوئی نماز نہیں پڑھتے تھے۔(مؤطا امام مالک)

جمعہ اور عید

*جمعتہ المبارک کے دن عید ہونے کی صورت میں عام دستور کے مطابق نماز عید ادا کی جائے گی۔ لوگوں کو اختیار ہے چاہیں توجمعہ ادا کریں ۔چاہیں تو چھوڑ دیں۔

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:’’تمہارے اس دن میں دو عیدیں جمع ہوچکی ہیں اگر کوئی چاہے تو یہ (نماز عید کا ادا کرنا)اسے جمعہ کے ادا کرنے سے کافی ہوجائے گا اور ہم یقیناََ جمعہ ادا کرنے والے ہیں۔‘‘۔(سنن ابوداؤد)

*جمعہ اور عید کا ایک دن میں ہونا کتاب و سنت کی روشنی میں کسی قسم کی نحوست کی علامت نہیں ہے۔

خطبہ عید

*نماز کے بعد خطبہ دیا جاتا ہے، عید کا خطبہ منبر پر نہیں ہوتا، کیونکہ آپ نے عید کا خطبہ منبر پر نہ دیا۔(صحیح بخاری)

*خطبہ کے وقت خاموشی اختیار کی جائے۔

راستہ تبدیل کرنا

عید کی نماز کے لئے ایک راستے سے جانا اور دوسرے سے اواپس آنا مسنون ہے۔(صحیح بخاری)

باہم ملاقات و دعا

عید کے روز مسلمانوں کی باہم ملاقات آپس کی محبت بڑھانے کا سبب بنتی ہے۔ صحابہ کرامؓ اس ملاقات میں ایک دوسرے کو مندرجہ ذیل دعا یاد کرتے تھے۔

تَقَبَّلَ اللہُ مِنَّا وَ مِنکُم(فتح الباری)

’’اللہ تعالیٰ ہم سے اور آپ سے (عبادت) قبول فرمائے‘‘۔

خوشی منانا

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ’’حبشی عید کے دن نیزوں سے مسجد میں کھیل دکھارہے تھے تو نبی نے مجھے بلایا اور میں نے آپ کے شانے پر سر رکھا اور ان کا کھیل دیکھنے لگی یہاں تک کہ میں ہی دیکھنے سے بیزار ہوگئی‘‘۔(صحیح مسلم)

حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ میرے پاس انصار کی دو(کمسن)لڑکیاں پیٹھے جنگ بعاث سے متعلق اشعار گا رہی تھیں، یہ گانے والیاں نہ تھیں کہ(اتنے میں) ابوبکرؓ تشریف لے آئے اور کہنے لگے، رسول اللہ کے گھر میں یہ گانا بجانا؟یہ عید کا دن تھا، رسول اللہ نے فرمایا:’’اے ابو بکر: ہر قوم کے لئے عید کا دن ہوتا ہے اور یہ ہماری عید کا دن ہے‘‘۔(صحیح بخاری)

یعنی عید کے روز خوشی کے احساس اور اظہار کے لئے ہلکے پھلکے کھیل کھیلنا یا اشعار پڑھنا جائز ہیں۔

شوال کے روزے

حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہ نے فرمایا:’’جو شخص رمضان کے روزے رکھ کر (ہرسال) شوال کے مہینے میں چھ روزے رکھے گا اسے عمر بھر کے روزوں کا ثواب ملتا ہے‘‘۔(صحیح مسلم)

یہ روزے عید کے فوراََ بعد یا ماہِ شوال میں تاخیر کے ساتھ مسلسل یا الگ الگ دونوں طرح رکھے جاسکتے ہیں البتہ عید کے فوراََ بعد پے در پے رکھنا افضل ہے۔(فتح الباری)