April 23rd, 2024 (1445شوال14)

کیا رمضان عید الفطر کے ساتھ ہی ختم ہو گیا؟

 

ترجمہ:ابوالفرح ہمایوں

مسلمانوں کی اکثریت کا جواب یہی ہوگا کہ ہاں۔جہاں تک کھانے پینے کا تعلق ہے۔اسکو قرآن و حدیث کی روشنی میں جانچا جا سکتا ہے۔جب ہم رمضان کی رحمتوں اور بخششوں کے بارے میں تحقیقات کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ رمضان نے ہمیں جو کچھ سکھایا ہے وہ ہر روز اور پورے سالکے لئے ہے۔

سب سے پہلے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہم طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک عام ضروریات اور خوشیوں سے دور رہتے ہیں اور اپنے آپکو ایک خاص انداز میں منظم رکھتے ہیں۔

 ٌیہی سبق ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم اپنے انداز زندگی میں مزید بہےری کس طرح لا سکتے ہیں۔(اگر اللہ تعالی چاہیں)

اللہ سبحان وتعالی فرماتے ہیں:

رمضان میں ہمیں صرف یہی ترغیب دی جاتی ہے کہ کس طرح اللہ کی رضا کا خیال رکھنا ہے اور اسی میں ہماری خوشی ہے۔مگر اکثر اوقات ہم یہ مواقع بھی دن میں سو کر ضائع کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالی کی عبادت انکساری اور محبت اصل روح ہے اور یہی روح ہماری زندگی کو جلا بخشتی ہے۔

رمضان کی جو روح ہم میں سرائیت کر چکی ہے اسکو سارا سال باقی رکھنا بھی عبادت میں شامل ہے اور جس طرح ہم نے دل و جان سے رمضان بھر عبادت کی ہے بقیہ دنوں میں بھی اسی راہ پر چلنا ہے۔

ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اللہ تعالی کی جانب ہمارا یہ پہلا قدم ہے اور بیشک دین کی راہ میں ایک بڑا قدم بھی اور یہی قدم آگے چل کرہماری پوری زندگی میں ایک انقلاب لا سکتا ہے۔

چنانچہ رمضان المبارک ہمیں صبر و استقامت کی تلقین کرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے دل و دماغ کو ایک خاص روشنی ودعیت کرتا ہے۔جو کہ اللہ تعلی کی رحمت اور مہربانیوں سے بھرا ہوا ہے۔ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ آئیندہ ہم صرف اسی کے بنائے ہوئے راستے پر چلیں گے اور وہی بات اہنے لئے پسند کریں گے جو اسکی مرضی کے عین مطابق ہوگی۔

یہ محنت اور جانفشانی جہاد کا درجہ رکھتی ہے اور مسلمانوں کی زندگی میں ایک کھلبلی مچا سکتی ہے۔

 اللہ تعالی ہمیں بتاتے ہیں :

اللہ کے ہاں تو ینہی لوگوں کا درجہ بڑا ہے جو ایمان لائے اور جنہوں نے اسکی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جان و مال سے جہاد کیا،وہی کامیاب ہیں۔(سورہ التوبہ۔۲۰)

 رمضان کی برکتوں نے ہمیں جو کچھ عطا کیا ہے وہ ہمیں مستقل بنیادوں پر قائم رکھنا پڑیگا۔

ہمیں صبر و تحمل کی ضرورت ہوگی۔ ہمیں سیدھی راہ پر گامزن رہنا ہوگا اور ہمیں اللہ اور اسکے رسول صلی الل علیہ و آلہ وسلم

کی پیروی کرنی ہوگی۔ہمیں اپنی ذاتی خواہشات  اور خیالات کو خیر باد کہنا ہوگا۔

آخر کار ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ رمضان کے گزر جانے کے بعد بھی اسکی نعمتیں اور رحمتیں ختم نہیں ہویئں۔ہم ان سے ہر دم فیضیاب ہو سکتے ہیں اور اسکی روشنی میں انی آئیندہ زندگی کی راہ متوین کر سکتے ہیں۔

 ان ہی اصولوں پر کار بند رہ کر اور اللہ تعالی اور اسکے رسول صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر ہم اپنی زندگی کا رخ موڑ سکتے ہیں اور دنیا کے سامنے ایک اچھے مسلمان کا نمونہ پیش کر سکتے ہیں