April 19th, 2024 (1445شوال11)

عشرہ ذالحجہ کے فضائل اوراعمال

آج کل ہرطرف قربانی کے جانوروں کا چرچاہے۔۔۔تم جا نور لے آئے یا آخر میں لاؤ گے ۔۔۔؟ابھی ریٹ صحیح ہیں بعد کا کچھ پتا نہیں .......کتنے کالائے ہو ؟ یا ر ....... فلاں بڑا بے کار جانورلایا ہے اس سے تو بندہ قربانی نہ کرے تو بہتر ہے ، آدمی کو اپنی حیثیت کے مطابق قربانی کرنی چاہیے ،اور ہا ں ......ان کے جا نور دیکھنے کے لائق ہے بڑا پیسہ خرچ کرتے ہیں ہر وقت دیکھنے وا لوں کا رش لگا رہتا ہے .....میں تو اپنے بچو ں کی پسند سے جانو ر لایا ہوں یار بچے بہت ضد کررہے تھے جلدی سے اچھا جا نو رلے آئیں ہم اسے باہر لے کر جائیں گے ۔ذالحج کا مہینہ قریب آتے ہی یہ گفتگو عام طور پر ہر جگہ ہی سننے کو آتی ہے ۔ قربانی کے جا نوروں کا ذکر !!!حج مناسک حج اور قربا نی کی اہمیت تک موضوع پر غالب آجا تا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم با لعموم ذالحجہ کے ان ایام میں روحا نی ترقی کے جو امکا نا ت موجود ہیں ان میں سے بہت کم حصہ لے پا تے ہیں اور اس کا سبب یہ عا م غلط فہمی ہے کہ یہ ایا م ان ہی لوگو ں کے لیے فضیلت اور عظمت کا باعث ہیں جو حج اور عمرے کے لیے جا تے ہیں جبکہ احادیث مبا رکہ سے عشرہ ذالحجہ کی فضیلت ثا بت ہے جو سا ری دنیا کے مسلمانوں کے لیے ہے ۔

عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت وحرمت :

جس طرح ہفتے کے سا تھ دنو ں میں جمعہ کو فضیلت حاصل ہے ۔ سا ل کے بارے مہینوں میں رمضان المبارک کو اور پھر رمضا ن کے تین عشروں میں آخری عشرے کو خاص فضیلت حا صل ہے اسی طرح ذ ی الحج کا پہلا عشرہ بھی فضل و رحمت کا خاص عشرہ ہے حج بھی اسی عشرے میں کیاجا تا ہے ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رحمت خدا وندی کے خاص دن ہیں ۔ لیکن حج مکہ معظمہ جاکر ہی ہوتا ہے ۔ اس لیے وہ عمرے میں ایک مرتبہ اہل استطاعت پر فرض کیا گیا ہے ۔ اس کی خا ص  برکا ت وہی لوگ حاصل کرسکتے ہیں جو وہا ں حا ضر ہو کر حج کریں ۔ لیکن اللہ تعا لیٰ نے اپنی رحمت سے سا رے اہل ایما ن کو اس کاموقع دیا ہے جب حج کے یہ ایام آئیں تو وہ اپنی اپنی جگہ رہتے ہو ئے بھی حج اور حا جیوں سے کچھ مناسبت پیدا کر لیں اور ان کے کچھ اعما ل میں شریک ہو جا ئیں ۔

حضور کا ارشا د ہے !

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ۔ اللہ تعا لیٰ کو عمل صالح جتنا ان دس دنوں میں محبوب ہے اتنا کسی دوسرے دن میں نہیں (صحیح بخاری)

حضور نے یومِ عرفہ کو تمام ایام پر فضیلت رکھنے والا دن قرار دیا ہے یومِ عرفہ یعنی جس دن حا جی حضرا ت میدانِ عرفا ت میں جمع ہوتے ہیں کیونکہ 9ذی الحج نہیں فرمایا اس لیے تما م دنیا کے مسلمانوں کے لیے یومِ عرفہ وہی ہے جس دن  حاجی میدانِ عرفا ت میں جمع ہوتے ہیں اور اس دن وہ اعمال انجا م دینے چا ہیں جس کی حضور کے ارشا دات میں ترغیب ہے۔

حضرت ابو قتادہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرما یا کہ :

میں اللہ تعا لیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ عرفہ کے دن کا روزہ اس کے بعد وا لے سا ل اور اس سے پہلے وا لے سا ل کے گنا ہون کا کفارہ ہوجا ئے گا ۔ (جامع ترمذی) عرفہ کے روزے کی یہ ترغیب ان حا جیوں کے لیے نہیں ہے ۔ جو حج کے لیے عرفہ کے دن میدان عرفا ت میں حا ضر ہوں ان کے لیے وہا ں رو زہ نہ رکھنا افضل ہے۔

عشرہ ذی الحجہ میں کیا کیا جا ئے؟

1۔نوافل کا اہتمام

نفل کا مطلب اضا فی یا زیا دہ ہے ۔۔۔ عبا دت کے معا ملے میں ہم بعض اوقات اس مطلب سے بڑی غلط فہمی کا شکار ہوجا تے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ نفل کی ضرورت نہیں کیوں کہ یہ ضرورت سے زیا دہ ہے حالاں کہ زندگی کا سا راحسن وجمال اسی نفل سے وابستہ ہے ذرا تصور کریں اگر اللہ آپ کو صرف اتنی ہی روزی دیتا جتنی آپ کے اور آپ پر انحصار کرنے وا لو ں کے زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے ؟ تو کیا وہ سب کچھ آپ بنا سکتے ۔۔۔۔ جو آپ کے پا س ہے ؟ اور کیا وہ بنا سکیں گے ۔۔۔جو آپ نے سو چا ہو ا ہے ؟ مجھے اس سے زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں۔۔۔آپ غور کریں اور پھر اس حدیث مبا رکہ پر غور کریں ۔۔۔ حضرت ام حبیبہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرما یا جو شخص دن اور را ت میں با رہ رکعت نما ز (علاوہ فرض نما زوں کے) پڑھے اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنا یا جا ئے گا ان کی تفصیل یہ ہے کہ چا ر ظہر سے پہلے دو ظہر کے بعد ، دو مغرب کے بعد دو عشا ء کے بعد اور دو فجر سے پہلے ( جا مع ترمذی۔ معا رف الحدیث ) یہ نما زیں سنت مو کدہ کہی جا تی ہیں اس لیے آپ نے ان کی بہت تا کیدد فرما ئی ہے ۔ اگر ان کی ادائیگی میں عا م دنوں میں کو تاہی رہی ہے تو اس عشرے میں ان کا خصوصی اہتما م کریں اس طرح امکان ہے کہ آئندہ دنو ں میں بھی ان کا اہتما م آسا ن ہوجا ئے گا اور ان کے اہتما م سے فرائض میں زیادہ حسن پیدا ہو جائے گا اسی طرح نفلی روزے ۔ صدقا ت کا اہتما م کریں ۔

2۔ قربا نی کی حقیقت اور اہمیت کو اجاگر کرنے لیے مجا لس کا ہتما م ۔

روزانہ یا ہر دوسرے تیسرے دن اپنے اہل خانہ کے اجتماع مین اس موضوع پر درج ذیل چیزوں کا مطالعہ اور پھر ڈسکشن کریں۔

ٍ آدم کے دوبیٹو ں قصہ سورہ الما ئدہ آیا ت28تا31از(تفہیم القرآن)ڈسکس کریں قربا نی کس کی قبول ہتی ہے اور حسد کا انجا م کیا ہوتا ہے ۔

سورہ حج آیات 32تا 38از( تفہیم القرآن )قربا نی کی اہمیت ، ضرورت اورطریقہ ڈسکس کریں

حضرت ابراہیمؑ کی کہا نی مولانا سید ابو الاعلی مودودی ؒ کی زبا نی (خطبا ت چھٹا حصہ بسلسلہ حج )دو سے تین نشستوں میں پڑھ کر سنائیں ارو ڈسکشن کریں پہلی نشست میں حضرت ابراہیم ؑ کے زما نے کے حا لات سے ہجرت تک کے وا قعات سنا ئیں دوسری نشست میں اولا د اور اس کی تربیت سے حج کے علا ن عا م تک ، اس کے بعد اگر دلچسپی ہو تو پورا مضمون قسط    وار پڑھیں یا خلاصہ کرکے بتا ئیں ۔

3۔ کثرت سے اللہ کا ذکر ۔

.تکبیر کیونکہ حج اور قربا نی تمام کی غرض و نہا یت ہی یہ بیا ن کی گئی ہے کہ (تا کہ تم اس ہدا یت پر اللہ کی بڑا ئی بیا ن کرو ) بخاری کی روایت ہے کہ ح حضرت عبداللہ ابنِ عمر اور حضرت ابو ہریرہ ان دنوں میں با زارمیں بہ آواز بلند تکبیر پڑھتے تھے ۔ چرم قربانی کے لیے جو رابطے ہم کرتے ہیں ان میں قربا نی کرنے والو ں کو قربا نی کے اصل مقصد کی جا نب اللہ کی تکبیر کی جا نب متوجہ کرنا چا ہیے اور وفد کو پورے شعور کے سا تھ تکبیر پڑھنا چا ہیے آہستہ بھی بہ آوازبلند بھی ۔۔۔اس سے بہ حیثیت مجموعی معا شرے میں حقیقی دین دا ر کی فضا بڑھے گی

تکبیر تشرق کا ہتما م 9ذی الحج کی نما ز فجر سے 13ذی الحج کی نما ز عصر سلا م کے بعدبہ آواز بلند پو رے شعور کے سا تھ تکبیر ادا کریں ۔

کثرت سے تو بہ استغفا رکریں اوراللہ سے زیا دہ سے زیادہ رجوع کریں ۔۔۔

لغویات سے اجتنا ب ۔۔۔گنا ہ کی با توں اور بے مقصد کاموں سے عا م دنوں میں بھی بچنا چاہیے .......ٹی وی انٹر نیٹ اور     موبا ئل فون کے استعما ل پر اپنے اوپر بھی اور اہل خانہ پر بھی چیک بڑھا دیں ۔

4۔یکم سے 9ذی الحجہ کے روزے .....تما م دنوں کے روزے رکھیں یا چند دنوں کے کوشش کریں کہ عرفہ کا روزہ ضرور رکھیں ۔

ام المومنین حضرت حفصہؓ سے روایت ہے کہ چا ر چیزیں وہ ہیں کہ کو رسول اللہ کبھی نہیں چھوڑتے تھے :۔ 1عاشور کا روزہ 2۔عشرہ ذی الحجہ (یعنی یکم ذی الحجہ سے یوم العرفہ نویں ذیالحجہ تک ) کے روزے ۔3ہر مہینے کے تین رو زے۔ 4قبل فجر کی دو رکعتیں (سنن نسائی )

5۔چا ند دیکھ کر ناخن اور با ل چھوڑ دینا ۔

ام المومنین حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ و نے فرمایا :جب ذی الحج کا پہلا عشرہشروع ہو جا ئے (یعنی ذی الحج کا چاند دیکھ لیا جائے )اور تم میں سے کسی کا ارادہ قربانی کرنے کا ہو تو اس کو چا ہیے کہ اب قربا نی کرنے تک اپنے   بال یا ناخن بالکل نہ تراشے۔ (صحیح مسلم )

حاجی ذی لاحجہ کو منی میں اللہ کے حضور میں اپنی قربانیا ں پیش کرتے ہیں ،دنیا پھر کر مسلمان جو حج میں شریک نہ         ہوسکے ان کو حکم ہے کہ وہ اپنی اپنی جگہ ٹھیک اسی دن اللہ کے حضوراپنی قربانیاں نذر کریں اور جس طرح حاجی احرام                                                      باندھنے کے بعد بال یا ناخن نہیں تشواتااسی طرح یہ مسلمان جو قربا نی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد با ل یا ناخن نہ ترشوائیں اور ااس طریقے سے بھی حاجیوں سے بھی کچھ مناسبت اور مشابہت پیدا کریں ۔ کس قدر        بابرکت اعما ل ہیں ۔جن پر عمل کرکے پوری امت مسلمہ ایک نہج پر آجا تی ہے۔

عید الاضحی کی قربانی

اگر کوئی دن کسی عظیم تاریخی واقعے کی حیثیت سے تہوار قراردیا جاسکتا ہے تو امت مسلمہ کے لیے جو ملت ابراہیمی کی  وارث اور نما ئندہ ہے 10 ذی الحج وہ با برکت تاریخی دن ہے جس میں سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کا حکم واشارہ پا کر اپنے لخت جگر سیدنا اسمعیل علیہ السلام کو ان کی رضا مندی سے قربانی کے لیے اللہ کے حضور میں پیش کرکے اور ان کے گلے پر چھری رکھ کر اپنی سچی وفا دا ری اور کا مل تسلیم ورضا کا ثبو ت دیا تھا اور اللہ تعا لیٰ نے عشق ومحبت اور قربا نی کے اس امتحان میں ان کو کا میاب قرار دے کر حضرت اسما عیلؑ کو زندہ وسلا مت رکھ کر ان کی جگہ ایک جا نور کی رقربا نی قبول فرما لی تھی اور حضرت ابرہیم علیہ السلام کے سربرا امت عا لم کا تا ج رکھ دیا تھا اور ان کے اس عمل کو قیامت تک کے لیے مسلمانوں کے لیے دہرانا وا جب قرار دیا تا کہ مسلمان اللہ کے حقیقی محبت اور وفا دا ری کے تقاضوں کوسمجھ سکیں اورامامت عا لم کا فریضہ انجا م دے سکیں

حضرت عا ئشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؑ نے ارشا د فرمایا :ذی الحضہ کی دسویں تا ریخ یعنی عید الاضحی کے دن فرزندہ آدم کا کو ئی عمل اللہ کو قربانی سے زیا دہ محبوب نہیں اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں اور       با لوں اور گھروں کے سا تھ (زندہ ہو کر ) آئے گا ، اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعا لیٰ کی رضا اور مقبولیت کے مقام پر پہنچ جا تا ہے ، پس اے خدا کے بندوں دل کی پو ری خوشی سے قربا نی کیا کرو ۔

آدمی اللہ کی بخشی ہوئی جن جن چیزوں سے فائدہ اٹھا تا ہے اور انہیں اپنی چیز کہتا ہے مشلاًمیری آنکھ ، میرے کان ، میری زبان میرے ہاتھ ، میرے پاؤں ،یہ سب حقیقتاًاللہ ہی نے اسے عطا کی ہیں اور وہ ان سب کی قربانی مانگتاہے اگر وہ چاہتا تو ہم سے یہ بھی کہ سکتاتھا کہ شعور کی عمر کو پہنچ کر پہلے سال اپنی ایک آنکھ میرے نام پر پھوڑلو۔ دوسرے سال ایک کان میں پگھلا ہوا سیسہ ڈا ل لو تیسرے سال ایک ہاتھ کاٹ ڈالو ۔۔۔اسی طرح ہر سال اپنے جسم کا کوئی عضو قربان کرو اور بالا اخر اپنے قلب پر خنجر مار کر اپنے آپ کو میرے لیے ہلاک کرلو ۔۔۔تب میں تمہیں اس سے اچھا جسم دوں گا اور اس سے اچھا مقام یعنی جنت دوں گا لیکن اسنے کہا ؛

یہ آنکھ تو تمھاری ہے تم آزاد ہو اس سے جو چاہو دیکھولیکن میں چاہتا ہوں کہ تم اس سے صرف وہ دیکھو جو میں چاہتا ہوں کہ دیکھو ۱۱۱

یہ کان تمہارے ہیں تم آزادہو ان سے جو چاہو سنو لیکن میں چاہتا ہوں کہ تم اس سے صرف وہ سنو جو میں چاہتا ہوں کہ سنو۱۱۱

یہ دل تمہارا ہے ۔ تم آزاد ہواس میں جسے چاہو بٹھا ؤ لیکن میں چاہتا ہوں کہ تم اس میں صرف مجھے بساؤ ۱۱۱

یہ دماغ تمہارا ہے تم آزادہو کہ اس سے جس طرح چاہو سوچو لیکن میں چاہتا ہوں کہ میں چاہتا ہوں کہ سوچو!!!

یہ ہاتھ پاؤ ں تمہارے ہیں تم آزاد ہو جیسے چاہو انہیں استعمال کرو لیکن میں چاہتا ہوں کہ تم انہیں میری ہدایت کے مطابق استعمال کرو !!!

اور اللہ چاہتا ہے کہ تم اپنی نظرسے کسی کو نقصان نہ پہنچاؤ اور کسی کو بری نظر سے نہ دیکھو ، اور وہ چیزیں بھی نہ دیکھوجن سے تمہاری نظر خراب ہوتی ہے اسی طرح اپنی زبان اور ہاتھ پیروں سے کسی کو نقصانہ پہنچاو، کسی کی غیبت نہ کرو چغلی نہ کرو بہتان اور الزام نہ لگاؤ ۔۔۔۔اپنے جسم وجان اوردل دماغ کو علم حاصل کرنے اور حلال رزق حاصل کرنیاور معاشرے میں خیر اور بھلائی پھلانے کے لیے استعمال کرو ۔

یہ ہی اللہ پر ایمان ہے اللہ پرایمان سے کیسی زندگی بنتی ہے ۔مولانا مودودی ؒ نے تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں سمجھاتے ہوئے فرمایا تھا۔انسان پورے شعور اور پورے اردے کے ساتھ یہ فیصلہ کر کے اور اسکاسب کچھ اللہ کا اوراللہ ہی کے لیے ہے اپنے معیار پسنداور ناپسند کو ختم کر کے اللہ کی کی پسند اور نا پسندکے تا بع کر دے اپنی خود سری کو مٹاکے اپنے نظریات وخیالات خواہشات وجذبات اور اندازفکر کو اس علم کے مطابق ڈھال لے جو خدا نے اپنی کتاب میں دیاہے ۔اپنی تمام ان وفاداریوں کو دریا برد کر دے جو خدا کی وفاداری کے طابع نہ ہوں بلکہ اس کے مد مقابل بنی ہوئی ہوں یا بن سکتی ہوں ۔اپنے دل میں سب سے بلند مقام پر خدا کی محبت کو بٹھانے اور ہر اس بت کو ڈھونڈھ کر کے اپنے نہال خانہ دل سے نکل پھینکے جو خدا کے مقابلے میں عزیز تر ہونے کا مطالبہ کرتاہو اپنی محبت اور نفرت ،اپنی دوستی اوردشمنی ،اپنی ر غبت اور کر اہیت ،اپنی صلح اور جنگ ہر چیز کو خدا کی مر ضی میں اسطرح گم کر دے کہ اس کا نفس وہی چاہینے لگے جو کدا چاہتا ہے ۔اور ایسی سے بھاگنے لگے جوخداا کو ناپسند ہے۔

اس طرح انسان جب زندگی گزارتا ہے تواللہ تعالی فرماتا ہے کہ اب یہ ہاتھ میرا ہاتھ ہے۔

ہاتھ ہے اللہ کابندہ مومن کا ہاتھ

غالب وکار آخر یں کار کشاکار

یہ ہے قر بانی کی اصل روح کہ آدمی اپنا سب کچھ اللہ کی رضاپر قربان کردے نہ صرف نعمتوں کا شکرادا کرنے کے لیے بلکہ اللہ کی بر تری اور مالکیت تسلیم کرنے کے لیے بھی تاکہ آدمی دل میں بھی اور عمل سے بھی اس عمل کا اعتراف کردے یہ سب کچھ اللہ کاہیجو اس نے ہمیں عطاکیا ہے ۔کائنات کی ہر شے اس کی قربانی کی دعوت دے رہی ہے پکار پکار کر قربان گا کی طرف بلا رہی ہے ۔ خود ہمارے وجود کا ایک ایک حصہ اس کے لیے بے تاب ہے اور خودہمارا خا لق،مالک اور آقا اسی قربانی کا منتظر ہے۔

توہے کوئی قربانی گاہ نفس دانا کی طرف جانے والا؟