April 20th, 2024 (1445شوال11)

عید الاضحیٰ۔۔۔۔آداب و احکام

عمران ظہور غازی

اسلامی مہینے ذلحج کے دسویں روز،مسلمانان عالم حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی عظیم قربانی کی یاد کے طور پر مناتے ہیں۔جو انہوں نے اپنے رب کے حضور پیش کی تھی یہ دراصل اس بات کا اعلان ہوتا ہےکہ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اللہ رب العالمین کا عطا کردہ ہےاور وہ اس لئے ہے کہ اسے اپنے اللہ کی راہ میں قربان کر دیا جائے۔جانور کی قربانی اور اس کی گردن پر چھری پھیرنا اور خون بہانااس بات کا عہد و پیماں اور ااعلان ہوتا ہے کہ اے رب العالمین!جس طرح تیری رضا کے لئے جانوروں کا خون پیش ہے اسی طرح ہماری جان بھی حاضر ہے۔

اسلام سے قبل لوگ قربانی کرتے،قربانی کا گوشت بیت اللہ کے سامنے لا کر رکھ دیتے اور خون بیت اللہ کی دیواروں پر مل دیتے۔ قرآن مجید نے بتایا کہ اللہ رب العزت کو تمہارے گوشت اور خون کی ضرورت نہیں وہ اس سے بہت بلند و برتر ہےاس کو تمہارا وہ جذبہ اور خلوص درکار ہےجو تمہارے دل میں رواں دواں اور موجزن ہے ۔سورہ الحج میں ارشاد ربانی ہے:’’اللہ کو نہ گوشت پہنچتا ہے نہ خون، اسے تو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘

گویا قربانی گوشت اور خون کا نام نہیں بلکہ یہ اللہ کے راستے میں سب کچھ قربان کر دینے کا نام ہے۔سورۃ الانعام میں ہے:’’کہیئے میری نماز میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لئیے ہے۔‘‘

مرحوم ملک نصر اللہ خان عزیز نے اس آیت کی یوں ترجمانی کی ہے:

میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی

میں اسی لئے مسلماں،میں اسی لئے نمازی

عید کا دن اظہار مسرت،شکرگزاری اور خوشیوں کا دن ہے۔یہ دن صرف نئے کپڑے پہننا، اور اپنی شان و شوکت کے اظہار کا نہیں بلکہ اس کی ادائیگی کے کچھ آداب بھی ہیں، نبی کریم اس دن کو کیسے مناتے تھے،انہوں نے امت کے لئے کیا رہنمائی چھوڑی،عیدالضحیٰ کے کیا احکامات ہیں۔ذی الحج کے فوائد اور برکات کو کیسے حاصل کیا جائے۔اور عید کیسے منائی جائے اور اس موقع پر صحیح اسلامی طریقہ (یعنی سنت) پر کیسے عمل کیا جائے۔یہ ایسے اعمال اور مسائل ہیں جن کے بارے میں ہر مسلمان کو معلوم ہونا چاہیئے۔یہ امور حسب ذیل ہیں۔

۱۔ ذی الحجہ کے ابتدائی دنوں کی بہت زیادہ فضیلت ہے۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:حضور نے ارشاد فرمایا’’ذی الحجہ کے ابتدائی۱۰ دنوں کے مقابلے میں کوئی اور دن ایسا نہیں جس مین نیک اعمال اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند و محبوب ہوں‘صحابہؓ نے پوچھا’’کیا جہاد فی سبیل اللہ سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے؟آپ نے فرمایا’’ہاں‘‘ البتہ وہ شخص جو اپنی جان و مال کے ساتھ اللہ کی راہ میں نکلے اور سب کچھ لٹا دے۔(صحیح بخاری)

۲۔ ذی الحجہ کے ابتدائی دنوں میں تکبیر کہنا احادیث میں وارد ہے،حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور حضرت ابو ہریرہ ؓ  ذی الحجہ کے ابتدائی دنوں میں بازار جاتے تو تکبیر کہتے تو ان کے ساتھ دوسرے لوگ بھی تکبیر کہتے(صحیح بخاری)اس ضمن میں فقہائے صحابہ اور ائمہ مجتہدین کا یہ مسلک ہےکہ یوم یوم عرفہ کی فجر سے ایام تشریق کے آخری دن تک ہر نماز کے بعد تکبیر کہی جائے۔جبکہ نماز عید کے لئے نکلتے وقت ہر شخص بلند آواز سے تکبیر کہےیعنی ۹ ذی الحجہ کی فجر سے ۳۱ذی الحجہ کی عصر تک ہر نماز کے بعد تکبیر کہنی چاہیئے۔

مردوں کے لئے مستحب ہے کہ وہ گھروں،بازاروں،راستوں میں بلند آواز سے تکبیر پکاریں اسی طرح جہاں سنت پر عمل ہوگا وہیں اس کا اظہار اور احیاء بھی عورتیں تنہائی میں ہوں تو بلند آواز میں اور اجنبی مردوں کے قریب یا سامنے ہوں تو دھیمے لہجے میں تکبیتؤر کہیں۔اصل حکم تو سب کے لئے بلند آواز میں کہنے تکبیر کہنے اور اللہ کی عظمت اور کبریائی بیان کر نے کا ہے تاکہ اللہ کی بندگی کا کھلم کھلا اعلان کیا جائے اور دوسری تمام بندگیوں کا انکار۔یہ دراصل اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کے شکر کا اظہار بھی ہے۔بلند آواز سے تکبیر کہیتے ہوئے عیدگاہ جانا مسنون ہےلیکن لوگ آج کل اس پر کم ہی عمل درآمد کرتے نظر آتے ہیں اور یہ کوتاہی اور غفلت کے سوا اور کچھ نہیں،اس کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔بآواز بلند تکبیر کہنا چاہیئےاور دوسروں کو بھی متوجہ کرنا چاہیئے۔تکبیر کا مقصد ہر لمحہ سامنے رہنا چاہیئے۔تکبیر کے الفاظ یہ ہیں:

اللہ اکبر اللہ اکبرلا الٰہ الا اللہواللہ اکبراللہ اکبروللہ الحمد

یہ وہ الفاظ ہیں جو حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ادا فرماتے تھے۔تکبیر کی ادئیگی انہ الفاظ میں کرنی چاہیئےجن میں نبی نے کی۔ان الفاظ میں کمی بیشی کرنا کسی طرح مناسب نہیں۔

۳۔ کچھ کھائے بنا عیدگاہ جانا سنت نبوی میں سے ہے۔حضرت بریدہؓ فرماتے ہیں کہ نبی عید الفطر والے دن عہد گاہ جانے سے قبل کچھ نہ کچھ تناول فرماتے جبکہ عید الضحیٰ والے دن کچھ نہ کھاتے،یہاں تک کہ نماز عید ادا کر لیتے(ترمذی)ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبیعید الفطر کے روز عید گاہ کے لئے نہیں نکلتے تھے جب تک کچھ کھا نہ لیتے اور عید الضحیٰ کے دن کچھ نہ کھاتے ،جب تک نماز عید سے فارغ ہو کر واپس نہ آجاتے۔پھر آپ اپنی قربانی کا گوشت تناول فرماتے۔اگر کسی نے عید گاہ جانے سے قبل بھول چوک سے کچھ کھا لیا تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔

۴۔ عید کی نماز کے لئے تیار ہونا،اچھے کپڑے پہننا،آرائش کرنا اور خوشبو لگانا سنن و آداب میں سے ہے۔اس سے بندہ اللہ کی نعمتوں کا اظہار کرتا ہےاور اللہ اس عمل کو پسند فرماتا ہے۔حضور نے فرمایا کہ اللہ اپنے بندوں پر ابنی نعمتوں کے اثرات دیکھنا پسند کرتا ہے(سنن ابی داؤد)حضرت عبد اللہ ان عمر فرماتے ہیں’’حضور عید کے روز سرخ جبہ زیب تن فرماتے‘‘۔

۵۔ عیدین کی نماز واجب ہے حضور نے لوگوں کو اس کے لئے نکلنے کو کہا ،یہاں تک کہ آپ نے نوجوان اور پردہ نشین خواتین کو بھی عید گاہ آنے کا حکم فرمایا۔حضرت امہ عطیہ فرماتی ہیں کہ نبی نے ہمیں حکم دیا کہ ہم عیدالفطر اور عیدالضحیٰ میں نوجوان ماہواری میں مبتلا اور پردہ دار خواتین کو لائیں۔ماہواری میں مبتلا خواتین نماز نہ پڑھیں البتہ دعائے خیر میں ضرور شریک ہوں۔میں نے حضور سے پوچھا اگر کسی کے پاس جلباب نہ ہو تو؟آپ نے فرمایا اس کی سہیلی اسے اپنے جلباب میں لے لے۔‘‘(صحیح مسلم)

۶۔ عیدین کی نمازوں کے ساتھ نوافل کی ادائیگی نہیں کرنی چاہیئے۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں

کہ نبی عید الضحیٰ اور عید الفطر کے دن عیدگاہ آئے اور دو رکعت نماز عید ادا کی۔آپ نے اس قبل کوئی نماز پڑھی اور اس کے بعد۔علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں’’اللہ کے نبی اور صحابہ کرامؓ عیدگاہ پہنچ کر نماز عید سے پہلے اور اور اسکے بعد کوئی نماز نہ پڑھتے۔(زادالمعاد) علامہ ابن حجرؒ کہتے ہیں:نماز سے قبل اور بعد کوئی نمازسنت ثابت نہیں(فتح الباری)

۷۔نماز عید الضحیٰ کا وقت اس وقت شروع ہو جاتا ہے،جب سورج ایک نیزے جتنا بلند ہوجائےاور زوال تک رہتا ہے۔نمازِ عید الضحیٰ کی جلد ادائیگی کا حکم ہے۔ابن قیمؓ فرماتے ہیں’’اللہ کے نبی نماز عیدالفطر تاخیر سے ادا فرماتےجبکہ وید الضحیٰ جلد ی ادا فرماتے (زادالمعاد)امام کو نمازعیدالضحیٰ جلد پڑھانے کا حکم اہتمام کرنا چاہیئے تاکہ لوگ قربانی سے جلد فارغ ہوسکیں۔

۸۔نماز عید الضحیٰ کا طریق ادئیگی یہ ہے کہ جب حضور عیدگاہ پہنچتے تو بغیر اذان و اقامت کے نماز پڑھاتے  (زادالمعاد) حضرت جابر بن سمرہؓ فرماتے ہیں’’میں نے نبی کے ساتھ کتنی ہی بار عیدین کی نماز بغیر اقامت و اذان کے ادا کی ہے۔‘‘(صحیح مسلم)نماز عید کی دو رکعتیں ہیں حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں’’سفر کی نماز کی دو رکعتیں ہیں،نماز جمعہ کی دو رکعتیں ہیں اسی طرح نماز عید کی بھی دو رکعتیں ہیں۔یہ دو رکعتیں مکمل نماز ہےقصر نہیں ہے۔‘‘(سنن ابن ماجہ)

احناف کے نزدیک نماز عید چھ زائد تکبیرات کے ساتھ ادا ہوگی۔ پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ اور ثنا کے بعد قرات سے قبل تین زائد تکبیریں ہوں گی جبکہ دوسری رکعت میں قرات کے بعد رکوع سے قبل تین زائد تکبیریں ہونگی جبکہ نماز دوسری نمازوں کی طرح ادا ہوگی۔

۹۔نماز عید کے بعد خطبہ سنت ہے،حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں: میں نے اللہ کے رسول  حضرت ابو بکرؓ،حضرت عمرؓ،حضرت عثمانؓکے ساتھ نماز عید پڑھی ،ان تمام حضرات نے خطبہ سے قبل نماز ادا کی(صحیح بخاری)حضرت عبداللہ بن سائبؓ فرماتے ہیں ’’میں نماز عید میں حاضر ہوا۔آپ نے خطبے کے بعد ارشاد فرماتے ہوئے کہا: ہم خطبہ دینے جا رہے ہیں جو شخص خطبے کے لئے بیٹھنا چاہے بیٹھے اور جو جانا چاہے وہ چلا جائے۔ ‘‘(سنن ابی داؤد)

۱۰۔عید کے آداب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اپنے دوسرے ملسمان بھائی کو عید کی مبارکباد دی جائے۔محمد بن زیاد فرماتے ہیإ’’میں ابو امامہ بابلیؓ  دوسرے صحابہ کرام کے ساتھ رہا ہوں۔یہ حضرات نماز سے واپسی پر ایک دوسرے کو تقبل اللہ منا و منک کہتے۔(بیہقی) ان کے علاوہ دوسرے کلمات سے بھی مبارکباد دی جاسکتی ہے۔البتہ یہ کلمات خلاف شریعت نہیں ہونے چاہیئیں۔

حضرت جابرؓ فرماتے ہیں’’حضورعید کے دن آنے جانے کے لئے راستہ تبدیل فرماتے(صحیح بخاری)عید کی ادئیگی کے حوالے سے بعض اوقات ایسے امور سامنے آتے ہیںجن کو سنت نہیں کہا جا سکتا۔عید کے دن قبروں کی زیارت کرنااور قبرستان جانا سنت سے ثابت نہیں ہے،اسی طرح عورتوں کا بےپردہ اور بن ٹھن کر پازاروں اور پارکوں گھومنا پھرنا مناسب ہے اور نہ شریعت نے اس کی اجازت دی ہےاسی طرح نامحرم خواتین کے ساتھ مصافحہ کرنا پسندیدہ عمل نہیں ہے۔نبی نے فرمایا کہ تم میں سے کسی کے سر پر سوئی چبھودی جائے یہ اس کے لئے بہتر ہے اس سے کہ وہ کسی ایسی عورت کو چھوئے جو اس کے لئے حلال نہ ہو۔‘‘ عید کے دن بلا عذر شرعی نمازوں کا ترک کرنا اور کوئی نماز ادا نہ کرنا اصلاح طلب عمل ہے نمازوں کی بروقت ادئیگی اہل ایمان کا شیوہ ہے۔غرباء اور مساکین کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنا اور اپنی خوشیوں میں انہیں شریک کرنا پسندیدہ عمل ہے۔

اس میں شک نہیں کہ عید خوشی کا دن ہے،جس میں لوگ زیب و زینت کرتے ہیں،لیکن خوشیوں کے اس دن آبے سے باہر ہوجانااور اخلاقی حدود کو پامال کرنا کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا۔عید اللہ رب العزت کے فضل کی شکر گزاری اور اس کے اعتراف کا نام ہے،عید کے موقع پر غرباء و مساکین،یتامیٰ و مجبور بے کس طبقات کا خیال رکھنا سچی خوشی کا ذریعہ ہے ،ہر مسلمان کو یہ کوشش کرنی چاہیئے کہ وہ سب کے کام آئے۔محبت کا ذریعہ بنے،اچھے اخلاق اختیار کرےاور اس کے ذریعہ سے اپنے رب کو راضی کرلے۔احسان دانش کے الفاظ میں:

عید قرباں ہے  غم دوراں کی قربانی کرو

بے دلی کی حسرت و ارماں کی قربانی کرو

جانور قربان کرنے سے نہین چلتا ہے کام

خواہشوں کی،شعلہ رقصاں کی قربانی کرو

یہی عید کا پیغام ہے