April 20th, 2024 (1445شوال11)

بولتے کیوں نہیں میرے حق میں۔۔۔ ؟



بولتے کیوں نہیں میرے حق میں۔۔۔ ؟

بواسطة Admin / 0 Comment

 کیا محض داعش کے 90 شدت پسندوں اور ان کے بنائے ہوئے سرنگوں کے نیٹ ورک کو کچلنے کے لئے دس ہزار کلو وزنی بم جس میں گیارہ ٹن بارودی مواد موجود تھا گرانا ضروری تھا؟ یہ تو ایک چیونٹی کو توپ کے گولے سے اڑانے کے مترادف عمل ہے۔ اگر دنیا میں کہیں کوئی ضمیر اور انسانیت نامی شے باقی ہے تو وہ امریکہ سے پوچھنے کا حق رکھتی ہے کہ کیا اس صوبے میں داعش کے شدت پسندوں کے علاوہ کوئی اور ذی روح موجود نہ تھا؟ انہیں کس جرم میں موت کی نیند سلایا گیا؟

روبینہ فرید

13 اپریل کی شام کو بظاہر تو امریکہ نے افغانستان کے صوبے ننگرہار پر ” بموں کی ماں” گرانے کا تجربہ کیا لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے گویا وہ بم پوری دنیا پر گرا ہو اور اس بم دھماکے نے پوری دنیا کے انسانوں کی عقل اور احساسات کو سلب کر لیا ہو ورنہ اتنی بڑی سفاکی اور اتنے سنگدلانہ رویے پر کہیں سے تو کوئی صدائے احتجاج بلند ہوتی نظر آتی؟ کیا محض داعش کے 90 شدت پسندوں اور ان کے بنائے ہوئے سرنگوں کے نیٹ ورک کو کچلنے کے لئے دس ہزار کلو وزنی بم جس میں گیارہ ٹن بارودی مواد موجود تھا گرانا ضروری تھا؟ یہ تو ایک چیونٹی کو توپ کے گولے سے اڑانے کے مترادف عمل ہے۔ اگر دنیا میں کہیں کوئی ضمیر اور انسانیت نامی شے باقی ہے تو وہ امریکہ سے پوچھنے کا حق رکھتی ہے کہ کیا اس صوبے میں داعش کے شدت پسندوں کے علاوہ کوئی اور ذی روح موجود نہ تھا؟ انہیں کس جرم میں موت کی نیند سلایا گیا؟ اور یہ بھی کیسے پتہ چلا کہ مرنے والے محض داعش سے تعلق رکھتے تھے؟

یہ بم جس کی خاصیت بتائی جا رہی ہے کہ زمین سے چھ فٹ اوپر پھٹ کر ڈیڑھ کلومیٹر کے دائرے کی تمام آکسیجن سلب کر لیتا ہے، ہوا کا دباؤ ختم ہو جاتا ہے اور درجہ حرارت کئی سو ڈگری تک پہنچ جاتا ہے۔ آکسیجن ختم ہو نے سے تمام جاندار دم گھٹنے سے مر جاتے ہیں اور درجہ حرارت میں اضافہ سے وہ جل کر خاکستر ہو جاتے ہیں تو آخر وہ کون سی ٹیکنالوجی ہے جس سے امریکہ کے بزدل فوجی کمانڈرز نے جان لیا کہ خاکستر ہونے والے یہ ذرے داعش کے شدت پسندوں کے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس دھماکے سے امریکہ کے سول و فوجی حکمرانوں نے محض اپنے غیر انسانی رویوں، سفاکیت، رعونت اور ظلم کو پوری دنیا کے سامنے عریاں کیا ہے۔ اس بم کے ذریعہ دنیا کو دہشت زدہ کرتے ہوئے وہ یہ بات بھول گئے کہ اس سے دراصل وہ اپنے فوجیوں کی بزدلی اور نکمے پن کو آشکار کر رہے ہیں۔ جو فوجی 90 دہشت پسندوں کو زمینی لڑائی میں شکست نہ دے سکیں اور فضائی طاقت کا سہارا لینے پر مجبور ہوں ان کی بزدلی میں کیا شبہ رہ جاتا ہے؟

دراصل اس قدم سے امریکہ نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ اب اسے تاریخ کے کوڑے دان میں ڈالنے کا وقت آگیا ہے۔ زمینی خدا بننے کی کوشش کرنے والا امریکہ اس خدا کو بھول گیا ہے جو حقیقت میں اس کائنات کا مالک ہے اور جو اپنی اس دنیا کا انتظام ان لوگوں کے سپرد کرتا ہے جو اس کے بہتر بناؤ کی صلاحیت رکھتے ہیں اور جب ان کا بگاڑ ان کے بناؤ کی صلاحیت سے زیادہ ہونے لگتا ہے تو پھر دنیا کی امامت ان سے لے کر کسی اور گروہ کے سپرد کر دی جاتی ہے۔

ٹریلین ڈالر خسارے کی معیشت کا شکار امریکہ اب سوائے اسلحہ کے کچھ اور بنانے پر قادر نہیں رہا۔ لہٰذا یہ اس کی مجبوری ہے کہ دنیا میں جنگوں کو گرم رکھے تاکہ اس کی اسلحہ ساز فیکٹریاں چلتی رہیں اور امریکی معیشت سانس لیتی رہے۔ کبھی طالبان، کبھی القاعدہ اور تازہ ترین پیشکش داعش، اس کے اپنے ہاتھوں بنائے ہوئے وہ بت ہیں جن کو بنانے اور جمانے کے بعد انھیں اپنا دشمن قرار دے کر ان کے نام پر پوری مسلم دنیا میں اس نے جنگ کی آگ کو پھیلا دیا ہے۔ میڈیا کی جادوئی لہروں کو اپنی پالیسیز کا تابع بنا کر وہ پوری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے اور “جھوٹ کو اتنا دہراؤ کہ وہ سچ لگنے لگے” کے اصول پر کامیابی سے کار فرما ہے۔ جب ہی تو ہمارا اپنا میڈیا دھماکے کے بعد سے بس یہی راگ الاپتا رہا ہے کہMOAB کے گرنے سے داعش کے 90 دہشت گرد ہلاک ہو گئے۔ ” گویا اس اتنے بڑے صوبے میں ان کے علاوہ کوئی رہتا ہی نہ تھا۔

اتنی تعلیم، اتنی ترقی، اتنی ٹیکنالوجی اگر انسانیت کو امن، سکون اور خوشحالی نہیں دے سکتی تو اس کا کیا فائدہ؟ یہ محض اللہ کے دیے ہوئے قانون کی صفت ہے جس میں تمام انسان برابر ہیں۔ ہر ایک کی جان، مال، عزت محترم ہے۔ جہاں ایک کا خون بہانا تمام انسانیت کا خون بہانا ہے اور جہاں ایک کی جان بچانا تمام انسانیت کی جان بچاناہے۔ اس سے ہٹ کراگر کسی نے اپنی مرضی کے بنائے ہوئے نظام پر دنیا کو چلانا چاہا وہاں اس کی ساری ہمدردی، انصاف، ترقی، جمہوریت اس کی جغرافیائی حدود، نسلی دائرہ اور مذہبی تشخص سے ٹکرا کر دم توڑ گئی۔ ان دائروں کے اندر ان کا رویہ انسان نوازی اور اس دائرے کے باہر انسان دشمنی پر مبنی نظر آتا ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ یورپین ممالک میں چند لوگوں کے مرنے پر سیاہ کر دیا جانے والا ایفل ٹاور ان ہزاروں افراد کی ہلاکت پر روشن رہا۔ سنتے ہیں اس دنیا میں کہیں کوئی”اقوام متحدہ” بھی ہے جو سب ممالک کی برابری پر یقین رکھتی ہے لیکن وہ بھی اس واقعہ پر سوئی رہی۔ سنتے ہیں کوئی عالمی عدالت بھی ہے لیکن کسی عدالت نے اس دہشت کا نوٹس نہیں لیا۔ سنتے ہیں اس دنیا میں”انسانی حقوق” کے ادارے بھی پائے جاتے ہیں لیکن کسی کو یہ مسئلہ انسانی حقوق کا مسئلہ نظر نہیں آیا۔ سنتے ہیں امریکہ میں جمہوریت اور جمہوری ادارے ہیں لیکن کسی ادارے نے نہیں پوچھا کہ اتنا بڑا فیصلہ ایوان کے مشورے کے بغیر کیسے کر لیا گیا؟ سنتے ہیں کہ مغرب میں کوئی سول سوسائٹی بھی ہے جو جانوروں تک کی زندگی کے لئے باہر نکل آتی ہے لیکن شاید اسے بھی یہ واقعہ اس قابل نظر نہیں آیا کہ وہ اس پر آواز بلند کرے۔

بولتے کیوں نہیں مرےحق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا؟

سوال تو ذہن میں یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ صوبہ ننگر ہار جو پاکستان کی سرحد سے متصل ہے، کیا اس دھماکے کے اثرات یہاں نہیں پڑیں گے؟ قبائلی علاقہ جات میں اس بم کے گرنے کے بعد زلزلے کی کیفیت پیدا ہو گئی اور گھروں اور دیگر عمارات میں دراڑیں پڑ گئیں۔ گیارہ ٹن بارودی مواد سے خارج کردہ کیمیکلز جب ہوا کی لہروں کے دوش پر پاکستان میں داخل ہوں گے تو کون کون سی تباہی لائیں گے۔ ؟ کیا ہمارے وزیر اعظم اور حکمران جماعت کو اس کا اندازہ ہے؟َ آنکھیں ترس گئیں کہ کہیں وزیر اعظم صاحب نے بھی اس دھماکے پر تشویش کا اظہار کیا ہو یا کسی اور پاکستانی سیاسی جماعت نے اس کی مذمت کی ہو۔ آپ افغانستان کے مظلوم و مجبور مسلمانوں کے لئے نہیں بول سکتے تو کم از کم اپنے ملک کے لئے تو بولتے جو پہلے ہی ماحولیاتی تباہی کا شکار ممالک میں سر فہرست ہے اور اس کی بہت بڑی وجہ افغانستان میں کئی سالوں سے مستقل بمباری سے خارج ہونے والا مواد بھی ہے۔ اب اگر یہ کیمیکلز پاکستانی گلیشیرز کے تیز ترین پگھلاؤ کا سبب بنتے ہیں تو آنے والے دنوں میں پاکستانی قوم کو سیلاب کے نقصانات اور سخت ترین موسموں اور مہلک بیماریوں کے خطرے کا سامنا کرنا پڑے گا۔


جواب چھوڑیں

.آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا